ذرا بھی شور موجوں کا نہیں ہے
سفینہ تو کوئی ڈوبا نہیں ہے
تمہارا حسن کیا ہے کیا نہیں ہے
تمہیں خود اس کا اندازا نہیں ہے
تری محفل کا کس سے حال پوچھیں
وہاں جا کر کوئی پلٹا نہیں ہے
یہ مے خانہ ہے اک جائے مقدس
چلے آؤ یہاں دھوکا نہیں ہے
وہ اس پر ہو گئے ہیں اور برہم
کہ راہیؔ کو کوئی شکوا نہیں ہے
غزل
ذرا بھی شور موجوں کا نہیں ہے
دواکر راہی