EN हिंदी
زنجیر تو پیروں سے تھکن باندھے ہوئے ہے | شیح شیری
zanjir to pairon se thakan bandhe hue hai

غزل

زنجیر تو پیروں سے تھکن باندھے ہوئے ہے

انجم بارہ بنکوی

;

زنجیر تو پیروں سے تھکن باندھے ہوئے ہے
دیوانہ مگر سر سے کفن باندھے ہوئے ہے

خوشبو کے بکھرنے میں ذرا دیر لگے گی
موسم ابھی پھولوں کے بدن باندھے ہوئے ہے

دستار میں طاؤس کے پر باندھنے والا
گردن میں مسائل کی رسن باندھے ہوئے ہے

شاید کسی مجذوب محبت کو خبر ہو
کس سحر سے دھرتی کو گگن باندھے ہوئے ہے

معراج عقیدت ہے کہ تعویذ کی صورت
بازو پہ کوئی خاک وطن باندھے ہوئے ہے

سورج نے اندھیروں کی نظر باندھ کے پوچھا
اب کون اجالوں کا سخن باندھے ہوئے ہے