زمزمہ کس کی زباں پر بہ دل شاد آیا
منہ نہ کھولا تھا کہ پر باندھنے صیاد آیا
قد جو بوٹا سا ترا سرو رواں یاد آیا
غش پہ غش مجھ کو چمن میں تہ شمشاد آیا
لے اڑی دل کو سوئے دشت ہوائے وحشت
پھر یہ جھونکا مجھے کر دینے کو برباد آیا
کس قدر دل سے فراموش کیا عاشق کو
نہ کبھی آپ کو بھولے سے بھی میں یاد آیا
دل ہوا سرو گلستاں کے نظارے سے نہال
شجر قامت دل دار مجھے یاد آیا
ہو گئی قطع اسیری میں امید پرواز
اڑ گئے ہوش جو پر کاٹنے صیاد آیا
ہو گیا حسرت پرواز میں دل سو ٹکڑے
ہم نے دیکھا جو قفس کو تو فلک یاد آیا
غزل
زمزمہ کس کی زباں پر بہ دل شاد آیا
امانت لکھنوی