زمیں تشکیل دے لیتے فلک تعمیر کر لیتے
ہم اپنے آپ میں ہوتے تو سب تقدیر کر لیتے
انہی راہوں پہ چلنے کی کوئی تدبیر کر لیتے
اگرچہ خاک اڑتی، خاک کو اکسیر کر لیتے
نہیں تھا سر میں سودا بام و در کا اس قدر ورنہ
زمانہ دیکھتا کیا کیا نہ ہم تعمیر کر لیتے
یہ مہلت بھی بڑی شے تھی ہمیں اے کاش مل جاتی
کسی دن بیٹھتے کار جہاں تحریر کر لیتے
خلش باقی نہ ہوتی تو بھلا کیا لطف رہ جاتا
تجھے تسخیر کرنا چاہتے تسخیر کر لیتے
نہیں گفتار کی لذت یہ جذبے کی کرامت ہے
اگر جذبہ نہیں ہوتا تو کیا تقریر کر لیتے
محبت میں جنوں کی برکتیں شامل جو ہو جاتیں
ادھورے خواب تھے پوری مگر تعبیر کر لیتے

غزل
زمیں تشکیل دے لیتے فلک تعمیر کر لیتے
شاہد لطیف