زمین تنگ ہے یا رب کہ آسمان ہے تنگ
یہ کیا کہ بندوں پہ پیہم تیرا جہان ہے تنگ
مرے سوال کا کوئی جواب کیا دیتا
کہ تیرے شہر میں ہر شخص کی زبان ہے تنگ
کروں تو کیسے کروں حرف مدعا آغاز
غزل کے واسطے لفظوں کا آسمان ہے تنگ
فضا میں اڑتے پرندے کی خیر ہو یا رب
کہ اس کا تیر بڑا ہے مگر کمان ہے تنگ
نظام نو میں نئے تجربات کیسے کریں
دل و دماغ کی ہر شخص کے اڑان ہے تنگ
مرے خدا اسے آزاد کر یہ اچھا ہے
حصار جسم میں ہر وقت میری جان ہے تنگ
اگرچہ خود وہ بہت تنگ ذہن و دل ہے مگر
امیر شہر کو دنیا کا ہر مکان ہے تنگ
پرندے چیخ رہے ہیں یہ کس کی ہجرت پر
یہ کس کے واسطے یا رب تیرا جہان ہے تنگ
سکوں نواز ہیں ٹوٹی حویلیاں لیکن
یہ اور بات کہ شیشے کا بھی مکان ہے تنگ
کسے سناؤں میں اپنی شکست کا قصہ
وہ لفظ اور وہ لہجہ وہ داستان ہے تنگ
غزل
زمین تنگ ہے یا رب کہ آسمان ہے تنگ
شمس رمزی