زمیں سے اٹھے ہیں یا آسماں سے آئے ہیں
یہ لوگ شہر میں جانے کہاں سے آئے ہیں
انہیں کو حق ہے بہاروں کے خیر مقدم کا
گزر کے جو کسی دور خزاں سے آئے ہیں
ہدف کوئی ہو کہیں ہو یقین ہے مجھ کو
یہ سارے تیر اسی کی کماں سے آئے ہیں
وہاں سے لوٹ کے آنے کا دل نہ کرتا تھا
پلٹ کے شہر میں اپنے جہاں سے آئے ہیں
یہ کون لوگ ہیں ملنے کے واسطے ہم سے
ادھر ادھر سے یہاں سے وہاں سے آئے ہیں
غزل
زمیں سے اٹھے ہیں یا آسماں سے آئے ہیں
خواجہ جاوید اختر

