EN हिंदी
زمیں سے عرش تلک سلسلہ ہمارا بھی تھا | شیح شیری
zamin se arsh talak silsila hamara bhi tha

غزل

زمیں سے عرش تلک سلسلہ ہمارا بھی تھا

فرحت احساس

;

زمیں سے عرش تلک سلسلہ ہمارا بھی تھا
کہ چشم خاک میں اک خواب سا ہمارا بھی تھا

تو اپنے گھر کی طرف موڑ لے گیا ہے جسے
زمیں سے پوچھ کہ یہ راستہ ہمارا بھی تھا

یہ سب چراغ جلائے ہوئے ہمارے بھی ہیں
بلائے شب کا کبھی سامنا ہمارا بھی تھا

ہمارے پاؤں بھی پڑتے نہ تھے زمیں پہ کبھی
کبھی کہیں یہی تخت ہوا ہمارا بھی تھا

یہ ہیں جو باغ میں بوس و کنار کے منظر
گئے دنوں میں یہی مشغلہ ہمارا بھی تھا

کسی کی زلف میں دیکھا تو ہم کو یاد آیا
کہ ایک پھول اسی رنگ کا ہمارا بھی تھا

یہی شراب کبھی ہم بھی خوب پیتے تھے
اسی نشے میں سر اڑتا ہوا ہمارا بھی تھا

زمین ہلتی تھی یوں ہی ہمارے آنے سے بھی
اسی طرح کا کبھی زلزلہ ہمارا بھی تھا

جو اب تمہارے تصرف میں ہے میاں احساسؔ
کبھی یہ عرصۂ ارض و سما ہمارا بھی تھا