زمیں سرکتی ہے پھر سائبان ٹوٹتا ہے
اور اس کے بعد سدا آسمان ٹوٹتا ہے
میں اپنے آپ میں تقسیم ہونے لگتا ہوں
جو ایک پل کو کبھی تیرا دھیان ٹوٹتا ہے
کوئی پرندہ سا پر کھولتا ہے اڑنے کو
پھر اک چھناکے سے یہ خاکدان ٹوٹتا ہے
جسے بھی اپنی صفائی میں پیش کرتا ہوں
وہی گواہ وہی مہربان ٹوٹتا ہے
نہ ہم میں حوصلۂ خود کشی کہ مر جائیں
نہ ہم سے قفل در پاسبان ٹوٹتا ہے
زکات عشق اگر بانٹنے پہ آ جاؤں
تو اک ہجوم طلب مجھ پہ آن ٹوٹتا ہے
جو آندھیاں سر صحرائے ہجر اٹھتی ہیں
ان آندھیوں میں رضاؔ نخل جان ٹوٹتا ہے
غزل
زمیں سرکتی ہے پھر سائبان ٹوٹتا ہے
حسن عباس رضا