زمیں پھر درد کا یہ سائباں کوئی نہیں دے گا
تجھے ایسا کشادہ آسماں کوئی نہیں دے گا
ابھی زندہ ہیں ہم پر ختم کر لے امتحاں سارے
ہمارے بعد کوئی امتحاں کوئی نہیں دے گا
جو پیاسے ہو تو اپنے ساتھ رکھو اپنے بادل بھی
یہ دنیا ہے وراثت میں کنواں کوئی نہیں دے گا
ملیں گے مفت شعلوں کی قبائیں بانٹنے والے
مگر رہنے کو کاغذ کا مکاں کوئی نہیں دے گا
خود اپنا عکس بک جائے اسیر آئینہ ہو کر
یہاں اس دام پر نام و نشاں کوئی نہیں دے گا
ہماری زندگی بیوہ دلہن بھیگی ہوئی لکڑی
جلیں گے چپکے چپکے سب دھواں کوئی نہیں دے گا
غزل
زمیں پھر درد کا یہ سائباں کوئی نہیں دے گا
ظفر گورکھپوری