EN हिंदी
زمیں پھر درد کا یہ سائباں کوئی نہیں دے گا | شیح شیری
zamin phir dard ka ye saeban koi nahin dega

غزل

زمیں پھر درد کا یہ سائباں کوئی نہیں دے گا

ظفر گورکھپوری

;

زمیں پھر درد کا یہ سائباں کوئی نہیں دے گا
تجھے ایسا کشادہ آسماں کوئی نہیں دے گا

ابھی زندہ ہیں ہم پر ختم کر لے امتحاں سارے
ہمارے بعد کوئی امتحاں کوئی نہیں دے گا

جو پیاسے ہو تو اپنے ساتھ رکھو اپنے بادل بھی
یہ دنیا ہے وراثت میں کنواں کوئی نہیں دے گا

ملیں گے مفت شعلوں کی قبائیں بانٹنے والے
مگر رہنے کو کاغذ کا مکاں کوئی نہیں دے گا

خود اپنا عکس بک جائے اسیر آئینہ ہو کر
یہاں اس دام پر نام و نشاں کوئی نہیں دے گا

ہماری زندگی بیوہ دلہن بھیگی ہوئی لکڑی
جلیں گے چپکے چپکے سب دھواں کوئی نہیں دے گا