زمیں پہ رہتے ہوئے کہکشاں سے ملتے ہیں
ہمارے رنگ بھی اب آسماں سے ملتے ہیں
ہمارے حال کی بوسیدگی پہ مت جاؤ
خزانے اب بھی پرانے مکاں سے ملتے ہیں
تری قسم کا بھی اب کیسے اعتبار کریں
ترے یقیں تو ہمارے گماں سے ملتے ہیں
وفا خلوص محبت ہمارا حصہ ہے
ہر ایک شخص کو یہ سب کہاں سے ملتے ہیں
گلے نہ ہم کو لگائیں کہ آپ جل جائیں
ہمارے زخم بھی برق تپاں سے ملتے ہیں
غزل
زمیں پہ رہتے ہوئے کہکشاں سے ملتے ہیں
ؔسراج عالم زخمی