زمیں پہ رہ کے کہاں فکر آسماں رکھنا
تم اپنے دوست جو رکھنا تو ہم زباں رکھنا
محبتوں کو نئے حوصلے عطا کرنا
عداوتوں کو تہ تیغ ہمرہاں رکھنا
بکھر نہ جائے مری زندگی کا شیرازہ
مرے خدا مری ہمت کو تو جواں رکھنا
یہ مشغلہ بھی عجب ہے ہمارے بیٹے کا
ہر ایک چیز اٹھانا یہاں وہاں رکھنا
بنانا ریت کے گھر تم کو یاد تو ہوگا
پھر ان گھروں میں محبت کی سیپیاں رکھنا

غزل
زمیں پہ رہ کے کہاں فکر آسماں رکھنا
جاوید منظر