زمیں پہ کھلتی رہی ہیں کلیاں فلک پہ تارے اگا کیے ہیں
یہی کرشمے ہوا کریں گے یہی کرشمے ہوا کیے ہیں
جنوں نہیں ہے کہ چاک دامن کو آبروئے بہار سمجھیں
خزاں کی یلغار میں بھی ہمدم ہم اپنا دامن سیا کیے ہیں
کسے خبر تھی کہ مے پرستوں کو ان کی خاطر عزیز ہوگا
وہ زہر غم جو نہ تھا گوارا وہ زہر غم جو پیا کیے ہیں
خدا ہے شاہد کہ زندگی میں وہ سجدہ ہائے غم محبت
قضا ہوئے تھے جو گاہے گاہے بشرط فرصت ادا کیے ہیں
نہیں ہے موقوف سرکشی پر مرے لہو میں کچھ اور بھی ہے
ہزار پہلو ہیں کفر و دیں کے جو اپنے حق میں روا کیے ہیں
اٹھاؤ مینا کہ شام غم کو سحر کے انوار سے بدل دیں
یہ داغ حسرت تو بے تکلف جلا کریں گے جلا کیے ہیں
غزل
زمیں پہ کھلتی رہی ہیں کلیاں فلک پہ تارے اگا کیے ہیں
خورشید الاسلام

