زمیں پر شور محشر روز و شب ہوتا ہی رہتا ہے
ہم اپنے گیت گائیں یہ تو سب ہوتا ہی رہتا ہے
یہ ہم نے بھی سنا ہے عالم اسباب ہے دنیا
یہاں پھر بھی بہت کچھ بے سبب ہوتا ہی رہتا ہے
تری خاطر کئی سچائیوں سے کٹ گئے رشتے
محبت میں تو یہ ترک نسب ہوتا ہی رہتا ہے
مسافر رات کو اس دشت میں بھی رک ہی جاتے ہیں
ہمارے دل میں بھی جشن طرب ہوتا ہی رہتا ہے
کوئی شے طشت میں ہم سر سے کم قیمت نہیں رکھتے
سو اکثر ہم سے نذرانہ طلب ہوتا ہی رہتا ہے
غزل
زمیں پر شور محشر روز و شب ہوتا ہی رہتا ہے
عرفانؔ صدیقی