زمیں پر سرنگوں بیٹھا ہوا ہوں
اور اپنا ریزہ ریزہ چن رہا ہوں
اگر الجھن نہیں کوئی تو کیوں میں
مسلسل سوچتا ہوں جاگتا ہوں
اسیر روز و شب ہے زندگانی
میں اس تکرار سے اکتا گیا ہوں
مری عریانیوں پر شور کیوں ہے
اگر اندھوں میں ننگا ہو گیا ہوں
تم اپنی روشنی محفوظ رکھنا
تمہارے واسطے میں بجھ رہا ہوں
کہاں تک بھاگتا اے شہر والو
سو اب میں قتل ہونے آ گیا ہوں
غزل
زمیں پر سرنگوں بیٹھا ہوا ہوں
تسلیم الہی زلفی