زمیں پر روشنی ہی روشنی ہے
خلا میں اک کرن گم ہو گئی ہے
میں تنہا جا رہا ہوں سوئے منزل
یہ پرچھائیں کہاں سے آ رہی ہے
یہ شام اور روشنی کی یہ قطاریں
اداسی اور گہری ہو گئی ہے
عروج ماہ ہے اور مقبروں پر
ابد کی چاندنی چٹکی ہوئی ہے
ابھار اے موج طوفاں خیز مجھ کو
یہ کشتی ریت میں ڈوبی ہوئی ہے
ہوا سے ہے کلی جنباں سر شاخ
یہ کن ہاتھوں میں نیزے کی انی ہے
گرا ہے شاخ گل سے ایک پتہ
کسی نے کیا مجھے آواز دی ہے
غزل
زمیں پر روشنی ہی روشنی ہے
رئیس امروہوی