زمین پر نہ رہے آسماں کو چھوڑ دیا
تمہارے بعد زمان و مکاں کو چھوڑ دیا
تباہ کر گیا اک لمحۂ خراب مجھے
کہ میں نے حلقۂ آوارگاں کو چھوڑ دیا
کہیں پناہ نہیں ملتی لمحہ بھر کے لیے
کہ جب سے محفل دل دادگاں کو چھوڑ دیا
بس ایک کنج خس و خاک میں سکون ملا
سو میں نے حلقۂ سیارگاں کو چھوڑ دیا
تمہارے بعد گزشتہ رہا نہ حال رہا
سو دل نے خدشۂ آئندگاں کو چھوڑ دیا
غزل
زمین پر نہ رہے آسماں کو چھوڑ دیا
فہیم شناس کاظمی