زمیں پر آسماں کب تک رہے گا
یہ حیرت کا مکاں کب تک رہے گا
نظر کب آشنائے رنگ ہوگی
تماشائے خزاں کب تک رہے گا
رہے گی گرمیٔ انفاس کب تک
رگوں میں خوں رواں کب تک رہے گا
حقیقت کب اثر انداز ہوگی
خسارے میں جہاں کب تک رہے گا
بدل جائیں گے یہ دن رات اجملؔ
کوئی نا مہرباں کب تک رہے گا
غزل
زمیں پر آسماں کب تک رہے گا
اجمل سراج