زمین پاؤں تلے سر پہ آسمان لیے
ندائے غیب کو جاتا ہوں بہرے کان لیے
میں بڑھ رہا ہوں کسی رعد ابر کی جانب
بدن کو ترک کئے اور اپنی جان لیے
یہ میرا ظرف کہ میں نے اثاثۂ شب سے
بس ایک خواب لیا اور چند شمع دان لیے
میں سطح آب پہ اپنے قدم جما لوں گا
بدن کی آگ لیے اور کسی کا دھیان لیے
میں چل پڑوں گا ستاروں کی روشنی لے کر
کسی وجود کے مرکز کو درمیان لیے
پرندے میرا بدن دیکھتے تھے حیرت سے
میں اڑ رہا تھا خلا میں عجیب شان لیے
قلیل وقت میں یوں میں نے ارتکاز کیا
بس اک جہان کے اندر کئی جہان لیے
ابھی تو مجھ سے میری سانس بھی تھی نا مانوس
کہ دست مرگ نے نیزے بدن پہ تان لیے
زمیں کھڑی ہے کئی لاکھ نوری سالوں سے
کسی حیات مسلسل کی داستان لیے

غزل
زمین پاؤں تلے سر پہ آسمان لیے
رفیق سندیلوی