EN हिंदी
زمیں کی وسعتوں سے آسماں تک | شیح شیری
zamin ki wusaton se aasman tak

غزل

زمیں کی وسعتوں سے آسماں تک

ستیہ پال جانباز

;

زمیں کی وسعتوں سے آسماں تک
کہانی اپنی جا پہنچی کہاں تک

لگی تھی آگ جو صحن چمن میں
وہ آ پہنچی ہمارے آشیاں تک

بتا دے ہم کو اتنا راہبر اب
بھٹکنا ہے ہمیں آخر کہاں تک

کسی کے حسن کا وہ رعب توبہ
شکایت رہ گئی آ کر زباں تک

چلی تھی بات میری داستاں سے
وہ آ پہنچی تمہاری داستاں تک

جو گزری ہے ہماری زندگی پر
نہ جائے وہ ہمارے کارواں تک

حدیث زندگی جانبازؔ چھیڑو
حدیث شعلہ و شبنم کہاں تک