زمیں کی وسعتوں سے آسماں تک
کہانی اپنی جا پہنچی کہاں تک
لگی تھی آگ جو صحن چمن میں
وہ آ پہنچی ہمارے آشیاں تک
بتا دے ہم کو اتنا راہبر اب
بھٹکنا ہے ہمیں آخر کہاں تک
کسی کے حسن کا وہ رعب توبہ
شکایت رہ گئی آ کر زباں تک
چلی تھی بات میری داستاں سے
وہ آ پہنچی تمہاری داستاں تک
جو گزری ہے ہماری زندگی پر
نہ جائے وہ ہمارے کارواں تک
حدیث زندگی جانبازؔ چھیڑو
حدیث شعلہ و شبنم کہاں تک
غزل
زمیں کی وسعتوں سے آسماں تک
ستیہ پال جانباز