EN हिंदी
زمیں کی حد اگر کوئی نہیں ہے | شیح شیری
zamin ki had agar koi nahin hai

غزل

زمیں کی حد اگر کوئی نہیں ہے

غوث متھراوی

;

زمیں کی حد اگر کوئی نہیں ہے
تو پھر میرا بھی گھر کوئی نہیں ہے

قفس میں بند ہے پرواز میری
امید بال و پر کوئی نہیں ہے

ہنر ان کو سکھاتا پھر رہا ہوں
مگر خود میں ہنر کوئی نہیں ہے

خبر اخبار میں آئے نہ آئے
خبر سے بے خبر کوئی نہیں ہے

یہاں تو بس پڑاؤ ہے ہمارا
ہمارا اپنا گھر کوئی نہیں ہے

یہ شہر آرزو ہے غوثؔ ایسا
جہاں حد نظر کوئی نہیں ہے