زمیں کی آنکھ خالی ہے دنوں بعد
فلک پر خشک سالی ہے دنوں بعد
سجانے خاک کا بستر لہو نے
الگ کیا رہ نکالی ہے دنوں بعد
کہیں چشم جبیں پھر کھل نہ جائے
کہ دشت دل جلالی ہے دنوں بعد
سمجھ میں وقت کا آیا کرشمہ
نظر خود پر جو ڈالی ہے دنوں بعد
کہا اس نے بالآخر مسکرا کر
تری دنیا نرالی ہے دنوں بعد
عجب اک کشمکش سی اندروں ہے
ضیا بھی کالی کالی ہے دنوں بعد
کوئی مجنوں مگر آتا نہیں ہے
مرا صحرا سوالی ہے دنوں بعد
خدا رکھے تجھے آباد ساجدؔ
غزل تو نے بنا لی ہے دنوں بعد
غزل
زمیں کی آنکھ خالی ہے دنوں بعد
ساجد حمید