EN हिंदी
زمیں کے سارے مناظر سے کٹ کے سوتا ہوں | شیح شیری
zamin ke sare manazir se kaT ke sota hun

غزل

زمیں کے سارے مناظر سے کٹ کے سوتا ہوں

امیر امام

;

زمیں کے سارے مناظر سے کٹ کے سوتا ہوں
میں آسماں کے سفر سے پلٹ کے سوتا ہوں

میں جمع کرتا ہوں شب کے سیاہی قطروں کو
بہ وقت صبح پھر ان کو پلٹ کے سوتا ہوں

تلاش دھوپ میں کرتا ہوں سارا دن خود کو
تمام رات ستاروں میں بٹ کے سوتا ہوں

کہاں سکوں کہ شب و روز گھومنا اس کا
ذرا زمین کے محور سے ہٹ کے سوتا ہوں

ترے بدن کی خلاؤں میں آنکھ کھلتی ہے
ہوا کے جسم سے جب جب لپٹ کے سوتا ہوں

میں جاگ جاگ کے راتیں گزارنے والا
اک ایسی رات بھی آتی ہے ڈٹ کے سوتا ہوں