زمیں کے سارے مناظر سے کٹ کے سوتا ہوں
میں آسماں کے سفر سے پلٹ کے سوتا ہوں
میں جمع کرتا ہوں شب کے سیاہی قطروں کو
بہ وقت صبح پھر ان کو پلٹ کے سوتا ہوں
تلاش دھوپ میں کرتا ہوں سارا دن خود کو
تمام رات ستاروں میں بٹ کے سوتا ہوں
کہاں سکوں کہ شب و روز گھومنا اس کا
ذرا زمین کے محور سے ہٹ کے سوتا ہوں
ترے بدن کی خلاؤں میں آنکھ کھلتی ہے
ہوا کے جسم سے جب جب لپٹ کے سوتا ہوں
میں جاگ جاگ کے راتیں گزارنے والا
اک ایسی رات بھی آتی ہے ڈٹ کے سوتا ہوں

غزل
زمیں کے سارے مناظر سے کٹ کے سوتا ہوں
امیر امام