EN हिंदी
زمیں کے ہاتھ یوں اپنا شکنجہ کس رہے تھے | شیح شیری
zamin ke hath yun apna shikanja kas rahe the

غزل

زمیں کے ہاتھ یوں اپنا شکنجہ کس رہے تھے

منیش شکلا

;

زمیں کے ہاتھ یوں اپنا شکنجہ کس رہے تھے
ستوں سارے محل کے رفتہ رفتہ دھنس رہے تھے

امیدیں لمحہ لمحہ گھٹ کے مرتی جا رہی تھیں
عجب آسیب سے آ کر دلوں میں بس رہے تھے

شجر پہ زہر نے اب رنگ دکھلایا ہے اپنا
رتوں کے سانپ یوں تو مدتوں سے ڈس رہے تھے

مرا سورج مری آنکھوں کے آگے بجھ رہا تھا
مرے سائے مری بے چارگی پہ ہنس رہے تھے

پڑے ہیں وقت کی چوٹوں سے اب مسمار ہو کر
وہی پتھر جو اپنے دور میں پارس رہے تھے

اجاڑا کس طرح آندھی نے بے دردی سے دیکھو
نگر خوابوں کے کتنی حسرتوں سے بس رہے تھے

اڑانوں نے کیا تھا اس قدر مایوس ان کو
تھکے ہارے پرندے جال میں خود پھنس رہے تھے