زمین فکر میں لفظوں کے جنگل چھوڑ جانا
غزل میں اپنی کوئی شعر مہمل چھوڑ جانا
ہیں نامانوس ابھی کرب تماشا سے نگاہیں
دیار جاں میں آشوب مسلسل چھوڑ جانا
نظر آئیں کبھی تحریر میں بے ربط فقرے
کبھی پیشانئ تنقید پہ بل چھوڑ جانا
بڑی مشکل سے ہوتا ہے کوئی درویش خصلت
میاں آساں نہیں کمخواب و مخمل چھوڑ جانا
کہ راس آتا نہیں آنکھوں کو اب شعلوں کا موسم
ہواؤں اس طرف بھی لا کے بادل چھوڑ جانا
مبارکؔ بس یہی اک آخری خواہش ہے اپنی
جو مجھ کو قتل کرنا ہو تو مقتل چھوڑ جانا
غزل
زمین فکر میں لفظوں کے جنگل چھوڑ جانا
مبارک انصاری