زمین چیخ رہی ہے کہ آسمان گرا
یہ کیسا بوجھ ہمارے بدن پہ آن گرا
بہت سنبھال کے رکھ بے ثبات لمحوں کو
ذرا جو سنکی ہوا ریت کا مکان گرا
اس آئینے ہی میں لوگوں نے خود کو پہچانا
بھلا ہوا کہ میں چہروں کے درمیان گرا
رفیق سمت سفر ہوگی جو ہوا ہوگی
یہ سوچ کر نہ سفینے کا بادبان گرا
میں اپنے عہد کی یہ تازگی کہاں لے جاؤں
اک ایک لفظ قلم سے لہولہان گرا
قریب و دور کوئی شعلۂ نوا بھی نہیں
یہ کن اندھیروں میں ہاتھوں سے شمع دان گرا
فضاؔ کو توڑ تو پھینکا ہواؤں نے لیکن
یہ پھول اپنی ہی شاخوں کے درمیان گرا
غزل
زمین چیخ رہی ہے کہ آسمان گرا
فضا ابن فیضی