زمیں اپنے لہو سے آشنا ہونے ہی والی ہے
بہت کچھ ہو چکا اب انتہا ہونے ہی والی ہے
سوا نیزے پہ سورج آ گیا اب دیکھیے کیا ہو
قیامت ایک دو پل میں بپا ہونے ہی والی ہے
مری آنکھوں تلک شعلہ لہو کا آن پہنچا ہے
یہ تلخی اب زباں کا ذائقہ ہونے ہی والی ہے
بہت دن جاگتے خوابوں کو آنکھوں سے لگایا ہے
یہ قربت کچھ دنوں تک فاصلہ ہونے ہی والی ہے
وہی گندم کا دانہ ہے وہی ہیں اس پہ تعزیریں
میں ڈرتا ہوں کہ پھر مجھ سے خطا ہونے ہی والی ہے
یہاں سے راستہ کوئی کسی جانب نہیں جاتا
یہیں سے اک سفر کی ابتدا ہونے ہی والی ہے
کھلے تھے مدتوں سے بے سبب آنکھوں کے دروازے
یہ بستی آج کل میں بے صدا ہونے ہی والی ہے
مرے گھر تک بھی آ پہنچا ہے آخر شور گلیوں کا
یہ تنہائی مرے دل سے جدا ہونے ہی والی ہے
گئے گزرے دنوں کی دھول اب آنکھوں سے دھو ڈالو
کوئی صورت کہیں سے رونما ہونے ہی والی ہے
ستارے خاک پائے آدمیت بننے والے ہیں
یہ مٹی اب مرے سر کی ردا ہونے ہی والی ہے
بدلنے کے لیے بیتاب ہے شہزاد یہ دنیا
روا جو چیز تھا اب ناروا ہونے ہی والی ہے
غزل
زمیں اپنے لہو سے آشنا ہونے ہی والی ہے
شہزاد احمد