زمانوں سے در امکان پر رکھے ہوئے ہیں
چراغوں کی طرح طوفان پر رکھے ہوئے ہیں
فضاؤں میں مہک جلنے کی بو پھیلی ہوئی ہے
کسی نے پھول آتش دان پر رکھے ہوئے ہیں
ذرا سا بھی گماں تیری شباہت کا تھا جن پر
وہ سب چہرے مری پہچان پر رکھے ہوئے ہیں
خوشی کو ڈھونڈھنا ممکن نہیں اس کیفیت میں
کچھ ایسے سانحے مسکان پر رکھے ہوئے ہیں
کوئی تیری پرستش کی نہیں صورت نکلتی
ہزاروں کفر اک ایمان پر رکھے ہوئے ہیں
شکم سیری سے پہلے لمحہ بھر کو سوچ لینا
ہمارے خواب دسترخوان پر رکھے ہوئے ہیں
کسی کے روز و شب بکنے کی قیمت چند لقمے
تو کیا وہ بھی ترے احسان پر رکھے ہوئے ہیں

غزل
زمانوں سے در امکان پر رکھے ہوئے ہیں
سرور ارمان