زمانوں کے خرابوں میں اتر کر دیکھ لیتا ہوں
پرانے جنگلوں میں بھی سمندر دیکھ لیتا ہوں
جو طوفانوں کے ڈر سے پانیوں میں سر چھپاتی ہیں
میں ایسی سیپیوں میں کوئی گوہر دیکھ لیتا ہوں
ہمیشہ خوف کے نرغے میں رہتا ہوں مگر پھر بھی
ابابیلوں کی منقاروں میں لشکر دیکھ لیتا ہوں
وہ دیہاتوں کے رستے ہوں کہ ہوں فٹ پاتھ شہروں کے
جہاں پر رات پڑ جائے وہاں گھر دیکھ لیتا ہوں
بہت سی خواہشوں کو میں پنپنے ہی نہیں دیتا
مگر ان کی نگاہوں میں سویمبر دیکھ لیتا ہوں
غزل
زمانوں کے خرابوں میں اتر کر دیکھ لیتا ہوں
ساقی فاروقی