EN हिंदी
زمانے کو لہو پینے کی لت ہے | شیح شیری
zamane ko lahu pine ki lat hai

غزل

زمانے کو لہو پینے کی لت ہے

کنول ضیائی

;

زمانے کو لہو پینے کی لت ہے
مگر پھر بھی یہاں سب خیریت ہے

ہماری شخصیت کیا شخصیت ہے
ہر اک تیور دکھاوے کی پرت ہے

ہمارا گھر بہت چھوٹا ہے لیکن
ہمارا گھر ہماری سلطنت ہے

یہ قطرہ خون کا دریا بنے گا
ابھی انسان زیر تربیت ہے

تعارف ہم سے اپنی ذات کا بھی
ابھی اہل کرم کی معرفت ہے

لکھے ہیں گیت برساتوں کے جس پر
ہمارے گھر پہ اس کاغذ کی چھت ہے

مری آنکھوں میں تلخی اس جہاں کی
ترے چہرے پہ خوف عاقبت ہے