زمانے کا بھروسا کیا ابھی کچھ ہے ابھی کچھ ہے
یہی ہے رنگ دنیا کا ابھی کچھ ہے ابھی کچھ ہے
جوانی کی ہے آمد حسن کی ہر دم ترقی ہے
تری صورت ترا نقشہ ابھی کچھ ہے ابھی کچھ ہے
نہ آئے گا قرار اس کو نہ ممکن ہے قیام اس کو
ہمارا دل ترا وعدہ ابھی کچھ ہے ابھی کچھ ہے
کبھی تو جستجو اس کی کبھی گم آپ ہو جانا
مری وحشت مرا سودا ابھی کچھ ہے ابھی کچھ ہے
غرور حسن ہے سر میں خیال دلبری دل میں
دماغ ان کا مزاج ان کا ابھی کچھ ہے ابھی کچھ ہے
ذرا میں مہرباں ہونا ذرا میں جان کے دشمن
عجب دل ہے حسینوں کا ابھی کچھ ہے ابھی کچھ ہے
تمہیں کیوں اس قدر غم ہے حفیظؔ اپنی تباہی کا
یہی دنیا کا ہے نقشہ ابھی کچھ ہے ابھی کچھ ہے
غزل
زمانے کا بھروسا کیا ابھی کچھ ہے ابھی کچھ ہے
حفیظ جونپوری