EN हिंदी
زمانے ہو گئے تیرے کرم کی آس لگی | شیح شیری
zamane ho gae tere karam ki aas lagi

غزل

زمانے ہو گئے تیرے کرم کی آس لگی

اجیت سنگھ حسرت

;

زمانے ہو گئے تیرے کرم کی آس لگی
قریب مے کدہ صحرا سی مجھ کو پیاس لگی

لہو رلاتے ہیں مجھ کو سہاونے منظر
چٹکتی چاندنی تیرے بنا اداس لگی

نہ اس میں مے ہے نہ پانی تو پیاس کیسے بجھے
یہ زندگی مجھے ٹوٹا ہوا گلاس لگی

یہ گرم گرم سے آنسو بتا رہے ہیں یہی
ضرور آگ کہیں دل کے آس پاس لگی

یہاں تو کوئی بھی مالک نہیں مرے صاحب
تمام خلق مجھے خواہشوں کی داس لگی

جہیز نام ہی سے رنگ اڑ گیا اس کا
غریب باپ کی بیٹی جہاں شناس لگی

کڑکتی دھوپ میں چل تو پڑی دلہن حسرتؔ
قدم قدم پہ اسے راستے میں پیاس لگی