زمانے ہو گئے تیرے کرم کی آس لگی
قریب مے کدہ صحرا سی مجھ کو پیاس لگی
لہو رلاتے ہیں مجھ کو سہاونے منظر
چٹکتی چاندنی تیرے بنا اداس لگی
نہ اس میں مے ہے نہ پانی تو پیاس کیسے بجھے
یہ زندگی مجھے ٹوٹا ہوا گلاس لگی
یہ گرم گرم سے آنسو بتا رہے ہیں یہی
ضرور آگ کہیں دل کے آس پاس لگی
یہاں تو کوئی بھی مالک نہیں مرے صاحب
تمام خلق مجھے خواہشوں کی داس لگی
جہیز نام ہی سے رنگ اڑ گیا اس کا
غریب باپ کی بیٹی جہاں شناس لگی
کڑکتی دھوپ میں چل تو پڑی دلہن حسرتؔ
قدم قدم پہ اسے راستے میں پیاس لگی
غزل
زمانے ہو گئے تیرے کرم کی آس لگی
اجیت سنگھ حسرت