زمانے بھر سے جدا اور با کمال کوئی
مرے خیالوں میں رہتا ہے بے مثال کوئی
نہ جانے کتنی ہی راتوں کا جاگنا ٹھہرا
مرے وجود سے الجھا ہے جب خیال کوئی
تمہیں بتاؤ کہ پھر گفتگو سے کیا حاصل
جواب ہونے کی ضد کر لے جب سوال کوئی
کرم کے بخش دیا تو نے مشکلوں کا پہاڑ
اب اس پہاڑ سے رستہ مگر نکال کوئی
گزارنے تھے یہی چار دن گزار دئے
نہ کوئی رنج نہ شکوہ نہ اب ملال کوئی
ہمارے ساتھ دعائیں بہت تھیں اپنوں کی
کبھی سکون سے گزرا مگر نہ سال کوئی

غزل
زمانے بھر سے جدا اور با کمال کوئی
عنبر کھربندہ