زمانے بھر کا جو فتنہ رہا تھا
وہی تو گاؤں کا مکھیا بنا تھا
مری شہرت کے پرچم اڑ رہ تھے
مگر میں دھوپ میں تنہا کھڑا تھا
ہزاروں راز تھے پوشیدہ مجھ میں
میں اپنے آپ سے چھپ کر کھڑا تھا
بہت سے لوگ اس کو دیکھتے تھے
وہ اونچے پیڑ پر بیٹھا ہوا تھا
پرانا تھا مداری کا تماشا
مگر وہ بھیڑ تھی رستا اڑا تھا
فسادی تھے مرے ہی گھر میں انجمؔ
میں ان کو شہر بھر میں ڈھونڈھتا تھا
غزل
زمانے بھر کا جو فتنہ رہا تھا
انجم عباسی