زمانہ اف یہ کیسا ہو رہا ہے
جو سیدھا تھا وہ الٹا ہو رہا ہے
اب اہل علم میں تاریکیاں ہیں
جہالت میں سویرا ہو رہا ہے
وہاں پر زندگی کیسے بچے گی
جہاں قاتل مسیحا ہو رہا ہے
بشر کا مقصد تخلیق دیکھو
اسے ہونا تھا کیا کیا ہو رہا ہے
یہ ہے تقلید مغرب کا نتیجہ
جدا مسلم سے پردہ ہو رہا ہے
ہماری راست گوئی کام آئی
وفا ہونا تھا وعدہ ہو رہا ہے
جمال فکر و فن کا تیرے انورؔ
سخن دانوں میں چرچا ہو رہا ہے
غزل
زمانہ اف یہ کیسا ہو رہا ہے
انور جمال انور