زمانہ میری تباہی پہ جو اداس ہوا
میں اپنے آپ سے اے دوست روشناس ہوا
مرے خلوص کے پھولوں سے جو اڑی خوشبو
تمہارے طنز کا موسم بھی بد حواس ہوا
جمال صحن گلستاں ہمیں سے قائم ہے
ہمارے خون سے ہر پھول خوش لباس ہوا
اکیلا پیڑ ہی موسم کا وار سہتا رہا
شکستہ برگ بھی کوئی نہ آس پاس ہوا
کبھی جو ٹوٹا ستارہ کسی کو آیا نظر
تو بزم غیر میں میرا ہی ذکر خاص ہوا
سفیر صبح درخشاں چلا جو مشرق سے
دیار شب کا شہنشاہ بد حواس ہوا
غزل
زمانہ میری تباہی پہ جو اداس ہوا
شاہین بدر