زمانہ کیا دیکھیے دکھائے نہ جانے کیا انقلاب آئے
فلک کے تیور ہیں خشمگیں سے زمیں کے دل میں غبار سا ہے
کمال دیوانگی تو جب ہے رہے نہ احساس جیب و دامن
اگر ہے احساس جیب و دامن تو پھر جنوں ہوشیار سا ہے
کچھ آج ایسی ہی جی پہ گزری دبی ہوئی تھی جو چوٹ ابھری
جسے سنبھالے ہوا تھا دل میں وہ نالہ بے اختیار سا ہے
غزل
زمانہ کیا دیکھیے دکھائے نہ جانے کیا انقلاب آئے
نہال سیوہاروی