زمانہ کچھ بھی کہے تیری آرزو کر لوں
شب سیاہ میں سورج کی جستجو کر لوں
مرے خدا مجھے توفیق سرکشی دیدے
خزاں ہے سامنے کچھ ذکر رنگ و بو کر لوں
اگر ہو مجھ کو میسر کہیں سے کوئی کرن
تو شب دریدہ ہے جو کچھ اسے رفو کر لوں
جو آنکھ کھول دوں سن کر ضمیر کی دستک
تو خود کو اپنی نظر میں میں سرخ رو کر لوں
ہوا ہے کتنے دنوں بعد رابطہ قائم
اب اپنے آپ سے راشدؔ میں گفتگو کر لوں

غزل
زمانہ کچھ بھی کہے تیری آرزو کر لوں
ارشد کمال