زلزلے سب دل کے اندر ہو گئے
حادثے رومان پرور ہو گئے
کشتیوں کی قیمتیں بڑھنے لگیں
جتنے صحرا تھے سمندر ہو گئے
دھوپ میں پہلے پگھل جاتے تھے لوگ
اب کے کیا گزری کہ پتھر ہو گئے
وہ نگاہیں کیا پھریں ہم سے کہ ہم
اپنی ہی آنکھوں میں کم تر ہو گئے
تم کہ ہر دل میں تمہارا گھر ہوا
ہم کہ اپنے گھر میں بے گھر ہو گئے
غزل
زلزلے سب دل کے اندر ہو گئے
مظہر امام