EN हिंदी
زلزلے سب دل کے اندر ہو گئے | شیح شیری
zalzale sab dil ke andar ho gae

غزل

زلزلے سب دل کے اندر ہو گئے

مظہر امام

;

زلزلے سب دل کے اندر ہو گئے
حادثے رومان پرور ہو گئے

کشتیوں کی قیمتیں بڑھنے لگیں
جتنے صحرا تھے سمندر ہو گئے

دھوپ میں پہلے پگھل جاتے تھے لوگ
اب کے کیا گزری کہ پتھر ہو گئے

وہ نگاہیں کیا پھریں ہم سے کہ ہم
اپنی ہی آنکھوں میں کم تر ہو گئے

تم کہ ہر دل میں تمہارا گھر ہوا
ہم کہ اپنے گھر میں بے گھر ہو گئے