زخموں کی مناجات میں پنہاں وہ اثر تھا
آنکھوں سے ٹپکتا ہوا آنسو بھی گہر تھا
اشکوں کی معیت میں تھے مغموم اندھیرے
صدمات کی ہر سیج میں اک خوف کا گھر تھا
پتے ہوں کہ پھل سب کا تھا اک اور ہی عالم
حیرت ہے مگر اس پہ کہ بونا وہ شجر تھا
دروازے مکانوں کے ہوئے بند سر شام
کہتے ہیں مگر یہ کہ جیالوں کا نگر تھا
کیسی وہ ہوس تھی کہ بنی موجب تعزیز
جنت سے نکلوا دیا کیسا وہ ثمر تھا

غزل
زخموں کی مناجات میں پنہاں وہ اثر تھا
یوسف جمال