زخموں کا بیوپاری ہے
اچھی ساہو کاری ہے
بوجھل بوجھل پلکوں پر
رات ابھی تک طاری ہے
بس اک پتھر جھگی کا
شیش محل پر بھاری ہے
سانپ ڈسے اک عمر ہوئی
نشہ اب تک طاری ہے
چند کہیں یہ فیشن ہے
چند کہیں بد کاری ہے
امن عالم کی خاطر
جنگ یگوں سے جاری ہے
میں ہی اسلمؔ سچا ہوں
جھوٹی دنیا ساری ہے

غزل
زخموں کا بیوپاری ہے
اسلم حبیب