EN हिंदी
زخمی دلوں کی پیاس سرابوں میں گم ہوئی | شیح شیری
zaKHmi dilon ki pyas sarabon mein gum hui

غزل

زخمی دلوں کی پیاس سرابوں میں گم ہوئی

خلیل مامون

;

زخمی دلوں کی پیاس سرابوں میں گم ہوئی
جو چشم وا تھی بجھتے چراغوں میں گم ہوئی

پھرتی ہے اس کو ڈھونڈتی اب موت کو بہ کو
یہ زندگی تو تیری نگاہوں میں گم ہوئی

چلنا لکھا ہے اپنے مقدر میں عمر بھر
منزل ہماری درد کی راہوں میں گم ہوئی

ہم ڈھونڈنے چلے ہیں کہاں پیکر خیال
چشم ہوس تو گم شدہ خوابوں گم ہوئی

خوشبو نے رستہ چھوڑ دیا انتظار کا
مٹی میں خفتہ بکھرے گلابوں میں گم ہوئی

اوراق کے پلٹنے سے کچھ بھی نہیں ملا
دانش ہماری ساری کتابوں میں گم ہوئی

مامونؔ ذوق عشق سے ملتا بھی کیا ہمیں
آب رواں کی موج کتابوں میں گم ہوئی