EN हिंदी
زخم تھوڑی سی خوشی دے کے چلے جاتے ہیں | شیح شیری
zaKHm thoDi si KHushi de ke chale jate hain

غزل

زخم تھوڑی سی خوشی دے کے چلے جاتے ہیں

مشتاق شاد

;

زخم تھوڑی سی خوشی دے کے چلے جاتے ہیں
خشک آنکھوں کو نمی دے کے چلے جاتے ہیں

روز آتے ہیں اجالے مرے اندھے گھر میں
روز اک تیرہ شبی دے کے چلے جاتے ہیں

ان کرائے کے گھروں سے تو میں بے گھر اچھا
نت نئی در بدری دے چلے جاتے ہیں

ذائقہ مدتوں رہتا ہے مرے ہونٹوں پر
وہ ذرا سی جو ہنسی دے کے چلے جاتے ہیں

شب گزاری کے لیے روشنی مانگوں جن سے
وہ چراغ سحری دے کے چلے جاتے ہیں

اختلافات اسی موسم گل سے ہیں جو شادؔ
خار بختوں کو کلی دے کے چلے جاتے ہیں