زخم تھوڑی سی خوشی دے کے چلے جاتے ہیں
خشک آنکھوں کو نمی دے کے چلے جاتے ہیں
روز آتے ہیں اجالے مرے اندھے گھر میں
روز اک تیرہ شبی دے کے چلے جاتے ہیں
ان کرائے کے گھروں سے تو میں بے گھر اچھا
نت نئی در بدری دے چلے جاتے ہیں
ذائقہ مدتوں رہتا ہے مرے ہونٹوں پر
وہ ذرا سی جو ہنسی دے کے چلے جاتے ہیں
شب گزاری کے لیے روشنی مانگوں جن سے
وہ چراغ سحری دے کے چلے جاتے ہیں
اختلافات اسی موسم گل سے ہیں جو شادؔ
خار بختوں کو کلی دے کے چلے جاتے ہیں
غزل
زخم تھوڑی سی خوشی دے کے چلے جاتے ہیں
مشتاق شاد