زخم سینے کا پھر ابھر آیا
یاد بھر کوئی چارہ گر آیا
مجھ کو بخشی خدا نے اک بیٹی
چاند آنگن میں اک اتر آیا
خوش نصیبوں کو گھر ملا یارو
میرے حصے میں پھر سفر آیا
تم تغیر کی بات پر ٹھہرے
میں صلیبوں سے بات کر آیا
اپنی تہذیب کو نہیں چھوڑا
یہ بھی الزام میرے سر آیا
اک کلی کھل کے پھول میں بدلی
ایک بھنورا بھی پھول پر آیا
پار اترا افق کے سورج تو
پھر مسافر کو یاد گھر آیا
دوستی دھوپ سے ہی کر لی جب
راہ میں تب گھنا شجر آیا
دل تو شایانؔ ٹوٹنا ہی تھا
اس کا کردار بھی نظر آیا
غزل
زخم سینے کا پھر ابھر آیا
شایان قریشی