EN हिंदी
زخم پرانے پھول سبھی باسی ہو جائیں گے | شیح شیری
zaKHm purane phul sabhi basi ho jaenge

غزل

زخم پرانے پھول سبھی باسی ہو جائیں گے

زیب غوری

;

زخم پرانے پھول سبھی باسی ہو جائیں گے
درد کے سب قصے یاد ماضی ہو جائیں گے

سانسیں لیتی تصویروں کو چپ لگ جائے گی
سارے نقش کرشموں سے عاری ہو جائیں گے

آنکھوں سے مستی نہ لبوں سے امرت ٹپکے گا
شیشہ و جام شرابوں سے خالی ہو جائیں گے

کھلی چھتوں سے چاندنی راتیں کترا جائیں گی
کچھ ہم بھی تنہائی کے عادی ہو جائیں گے

کوچۂ جاں پر گہرے بادل چھائے رہیں گے زیبؔ
اس کی کھڑکی کے پردے بھاری ہو جائیں گے