زخم کچھ ایسے مرے قلب و جگر نے پائے
عمر بھر جو کسی عنوان نہ بھرنے پائے
ہم نے اشکوں کے چراغوں سے سجا لیں پلکیں
کہ ترے درد کی بارات گزرنے پائے
اس سے کیا پوچھتے ہو فلسفۂ موت و حیات
کہ جو زندہ بھی رہے اور نہ مرنے پائے
اس لیے کم نظری کا بھی ستم سہنا پڑا
تجھ پہ محفل میں کوئی نام نہ دھرنے پائے
پاس آداب وفا تھا کہ شکستہ پائی
بے خودی میں بھی نہ ہم حد سے گزرنے پائے
اپنے جذبات کے بپھرے ہوئے طوفاں میں رضاؔ
اس طرح ڈوبے کہ پھر ہم نہ ابھرنے پائے
غزل
زخم کچھ ایسے مرے قلب و جگر نے پائے
رضا ہمدانی