EN हिंदी
زخم کھاتے ہیں جی جلاتے ہیں | شیح شیری
zaKHm khate hain ji jalate hain

غزل

زخم کھاتے ہیں جی جلاتے ہیں

وقار خان

;

زخم کھاتے ہیں جی جلاتے ہیں
ہم کہاں ایسے باز آتے ہیں

زندگی روز گھٹتی جاتی ہے
مسئلے روز بڑھتے جاتے ہیں

اب کہاں بھوت اور بلائیں رہیں
آدمی آدمی کو کھاتے ہیں

ایک وہ ہم سے دور رہ کے بھی خوش
ایک ہم اپنا دل جلاتے ہیں

خاک سے خاک بھی نہیں ملتی
روز ہم خاک چھان آتے ہیں

موسم نارسائی آیا ہے
صبر کی فصل اب اگاتے ہیں