EN हिंदी
زخم کھانے سے یا کوئی دھوکہ کھانے سے ہوا | شیح شیری
zaKHm khane se ya koi dhoka khane se hua

غزل

زخم کھانے سے یا کوئی دھوکہ کھانے سے ہوا

جاوید شاہین

;

زخم کھانے سے یا کوئی دھوکہ کھانے سے ہوا
بات کیا تھی میں خفا جس پر زمانے سے ہوا

ایک پل میں اک جگہ سے اتنا روشن آسماں
کوئی تارہ بنتے بنتے ٹوٹ جانے سے ہوا

سوچتا رہتا ہوں میں اکثر کہ آغاز جہاں
دن بنانے سے کہ پہلے شب بنانے سے ہوا

میں غلط یا تم غلط تھے چھوڑو اب اس بات کو
ہونا تھا جو کچھ وہ جیسے اک بہانے سے ہوا

کچھ زمانے کی روش نے سخت مجھ کو کر دیا
اور کچھ بے درد میں اس کو بھلانے سے ہوا

بات ساری اصل میں یہ تھی میں اس سے بد گماں
اک تعلق میں کہیں پہ شک کے آنے سے ہوا

بچ ہی نکلا ہوں میں جاڑے کی بڑی یلغار سے
گرم اب کے گھر بدن کا خس جلانے سے ہوا

کیا کہوں میری گرفتاری کا کوئی اہتمام
کیسے زیر دام رکھے ایک دانے سے ہوا

عمر بھر کا یہ جو ہے شاہیںؔ خسارہ یہ مجھے
ایک سودے میں کوئی نیکی کمانے سے ہوا