EN हिंदी
زخم کب کا تھا درد اٹھا ہے اب | شیح شیری
zaKHm kab ka tha dard uTha hai ab

غزل

زخم کب کا تھا درد اٹھا ہے اب

تاجدار عادل

;

زخم کب کا تھا درد اٹھا ہے اب
اس کے جانے کا دکھ ہوا ہے اب

میری آنکھوں میں خواب ہیں جس کے
اس کی آنکھوں میں رت جگا ہے اب

سنتے آتے ہیں قافلہ دل کا
رہ گزر میں کہیں رکا ہے اب

وہ جو پتھر کا تھا مسافر وہ
شہر افسوں سے آ گیا ہے اب

جو مری خواہشوں کی منزل تھی
اس کے آنے کا راستہ ہے اب

جس کو ڈھونڈا تھا میں نے ہر جانب
میرے دل میں کہیں چھپا ہے اب

کتنے خوابوں میں رنگ اس کے ہیں
کتنی آنکھوں سے دیکھتا ہے اب

کتنے موسم ہیں صرف اس کے لیے
کتنے چہروں پہ وہ سجا ہے اب

کتنی باتوں میں اس کی باتیں ہیں
کتنے لہجوں میں بولتا ہے اب

جو ترے شہر لے کے آتا تھا
رخ وہ دریا بدل رہا ہے اب

آؤ دستک ہی دے کے دیکھیں تو
وہی دروازہ پھر کھلا ہے اب

اس حوالے سے زندگی میری
گھنے جنگل کا سلسلہ ہے اب

ایک دیوانہ اپنی وحشت میں
بات کہنے کی کہہ گیا ہے اب