EN हिंदी
زخم کا جو مرہم ہوتے ہیں | شیح شیری
zaKHm ka jo marham hote hain

غزل

زخم کا جو مرہم ہوتے ہیں

زاہد کمال

;

زخم کا جو مرہم ہوتے ہیں
لوگ ایسے اب کم ہوتے ہیں

سورج ڈوب کے پھر ابھرے گا
کیوں اتنے ماتم ہوتے ہیں

کمسن لفظوں کے سینوں میں
گہرے مطلب کم ہوتے ہیں

لمحہ لمحہ عمر خوشی کی
صدیاں صدیاں غم ہوتے ہیں

پہلے آپ سمندر سے
دریا خود ہی ضم ہوتے ہیں