زخم الفت عیاں نہیں ہوتا
آنکھ سے خوں رواں نہیں ہوتا
حسن کو صرف وہم ہے ورنہ
عشق تو بد گماں نہیں ہوتا
کوئی منزل بھلا قدم چومے
عزم جب تک جواں نہیں ہوتا
دیکھیے تو نقاب الٹ کے ذرا
چاند کب تک عیاں نہیں ہوتا
دیکھ کر غمزدہ سے کچھ چہرے
درد دل کیوں عیاں نہیں ہوتا
کوہ و صحرا ہو دشت ایمن ہو
گزر اپنا کہاں نہیں ہوتا
پھول کیسے وہاں نہ خار لگیں
ذکر تیرا جہاں نہیں ہوتا
میں تو کیا دل بھی میرا اس کا ہے
جو کبھی مہرباں نہیں ہوتا
زور طوفاں ہے دور ساحل ہے
ناخدا مہرباں نہیں ہوتا
رازداں کس کو کس طرح سمجھوں
راز دل تو بیاں نہیں ہوتا
شعریت شعر میں ہو کیسے نظیرؔ
ذہن جب تک رواں نہیں ہوتا
غزل
زخم الفت عیاں نہیں ہوتا
نظیر رامپوری